نادرہ مہر نواز کی تحریریں بہت عرصے سے پڑھ رہی ہوں۔ ایک بار ان سے روبرو ملاقات بھی ہوئی، جو سو ملاقاتوں پر بھاری ہے۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ایک ہی ملاقات میں سامنے آ گئے۔ اس وقت سمجھ نہیں آ رہا، کہ ان کی تحریر پر تبصرہ کروں یا شخصی خاکہ لکھوں۔ انسان کو پڑھنا، سمجھنا میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ نادرہ اپنی تحریروں کی طرح سچی اور بے باک ہیں۔ وہ کھل کر ہنستی اور کھل کر باتیں کرتی ہیں۔ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ بڑی فیاض ہیں۔ انسان کے دل کے قریب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس کی طبیعت اور مزاج کے ہوتے ہیں۔ وہ مجھے، میرے دل کے بہت قریب لگیں۔ وہ ایک مجسم کہانی کار ہیں۔ بہت خوبصورت ٹھہر ٹھہر کر بولتی ہیں۔ ان کی آواز میں نغمگی ہے۔
اس تماشے میں جو ہم روز و شب دیکھتے ہیں بنا ضرورت اور شدید ضرورت کے کردار بکھرے پڑے ہیں۔ ہر کردار کے اپنی اپنی کہانی ہے میں تو کہتی ہوں کردار کی ہی نہیں بے جان چیزوں کی بھی اپنی اپنی کہانی ہے۔ بہت ساری اشیاء جو ہمیں اپنے ارد گرد بکھری، سمٹی نظر آتی ہیں، کچھ کہہ سکتیں اب تک، تو جانے کتنی کہانیاں سامنے آ جاتیں۔ دریا، درخت، پانی، مٹی، پھول، پودے، کھیت، پینسل، کتاب، قلم، گیند، گٹار، بستر، دوپٹہ، جیکٹ، دیوار، چھت۔ سب، کچھ سنانا چاہتے ہیں، بتانا چاہتے ہیں، انسان کی فیاضی، انسان کی بخیلی، انسان کا رحم، اس کا، قہر، انسان کا استعمال ہونا انسان کا استعمال کرنا۔ نادرہ نے اپنے پیش لفظ میں لکھا۔