عاشقانِ عمران کی ٹرمپ سے عبث توقعات

خود کو تھکانے اور آپ کو اْکتا دینے کی حد تک بارہا اس کالم کے ذریعے امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کو نہایت خلوص اور عاجزی سے سمجھاتا رہا ہوں کہ ریاستوں کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات طویل المدت مفادات پر مبنی ہوتے ہیں اور پاکستانی ریاست 1950ء کی دہائی سے امریکی ریاست کی اتحادی ہونے کی حد تک ’’دوست‘‘ بن چکی ہے۔ پاکستان میں جمہوری نظام کو مضبوط ومستحکم بنانا ان دو ممالک کے مابین دوستی کا اصل سبب نہیں۔ کلیدی مقصد امریکہ کے دفاعی مفادات ہیں۔ سرد جنگ کے دنوں میں ترجیح کمیونزم کے فروغ کو روکنا تھا۔ ’’سرد جنگ‘‘ 1980ء کی دہائی میں ’’افغان جہاد‘‘ کی صورت ’’گرم‘‘ ہوئی۔ اس گرمی کو آمر مطلق جنرل ضیاء نے بھڑکائے رکھا اور معاملہ سوویت یونین کے کامل انہدام تک پہنچا۔ روس کی افغانستان میں شکست کے بعد وہاں موجود ’’دہشت گرد‘‘ امریکی ریاست کا دردِ سر ہوئے۔ ان کے خلاف جنگ کا فیصلہ ہوا تو اس کی قیادت بھی جمہوری طورپر منتخب کسی پاکستانی رہ نما کو نصیب نہ ہوئی۔ جنرل مشرف ’’روشن خیال‘‘ بن کر اس کے قائد بنے۔

امریکہ 21 برسوں تک افغانستان پر قابض رہنے کے باوجود بالآخر اس ملک سے ذلت آمیز انداز میں رخصت ہوا۔ اس کی رخصتی کے بعد طالبان فاتحین کی صورت کابل لوٹ آئے مگر ’’اصل اسلام‘‘ کی پرچارک ہوئی داعش نے ان کے ایمان واقتدار پر سوال اٹھانا شروع کردئے۔ طالبان ان پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ ایسے عالم میں خود کو ’’دہشت گردی‘‘ سے محفوظ رکھنے کے لئے امریکہ ’’عطار کے اسی لڑکے‘‘ سے حمایت کے حصول کو مجبور ہے جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔

امریکہ میں مقیم عاشقان عمران مگر تاریخ اور ریاستی تقاضوں سے احمقانہ حد تک ناآشنا ہونے کی وجہ سے مصر رہے کہ 2024ء کے نومبر میں منتخب ہوا صدر -ڈونلڈٹرمپ- روایت شکن ہے۔ فوج اور روایتی ریاستی ایجنسیوں سے جنہیں وہ حقارت سے ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کہتا ہے، نفرت کرتا ہے۔ اس کی عمران خان سے دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ان ملاقاتوں کی وجہ سے خان صاحب اسے ’’اپنے جیسے‘‘ لگے۔ وہ محسوس کر رہا ہے کہ عمران خان صاحب ان دنوں پاکستان کی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کے ہاتھوں ’’جعلی مقدمات‘‘ کا سامنا کرتے ہوئے شدید اذیت برداشت کر رہے ہیں۔ امید لہٰذا ہمیں یہ دلائی جارہی تھی کہ اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ ٹیلی فون اٹھا کر پاکستان میں طاقت کے ’’اصل‘‘ مالکوں کو فون کرے گا اور عمران خان اڈیالہ جیل سے رہا ہو جائیں گے۔