اگر بچہ ویجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟

پچھلے کالم کے بعد کچھ نے کہا کہ ویجائنا تو بنی ہی اس لیے کہ بچہ وہاں سے نکلے۔ کچھ فرمانے لگے کہ فلاں بی بی نے دس بچے پیدا کیے، کچھ بھی نہ ہوا۔

مورکھو۔ جان لو کہ تمہارے گھر کی عورت وہ ہستی ہے جو تمہارے ساتھ پوری زندگی گزار جائے گی مگر تمہیں کانوں کان خبر نہ ہونے دے گی کہ کیسی گزری؟

عورت کو بولنا اور حق مانگنا سکھایا ہی نہیں گیا بلکہ گھٹی میں یہ ڈال دیا گیا ہے کہ خبردار، منہ بند رکھنا، زبان پہ شکوہ شکایت لائیں تو نہ آگے کی رہو گی نہ پیچھے کی۔ سو آگے نہ پیچھے کا خوف دل میں پالتے ہوئے زندگی کے دن کاٹتی ہے گن گن کر۔

کچھ خواتین کے اور پیغامات آئے جو مرد حضرات نے حسب معمول نظر انداز کر دیے۔

” کھانسی اور چھینک کے ساتھ پیشاب کے قطروں کا اخراج ہر اس عورت کے لیے عام سی بات ہے جس کے تین چار بچے ہوں“

”میں نے اپنی بہت سی ہم عمر لڑکیوں کو دیکھا ہے جنہوں نے نارمل ڈلیوری کروائی اور وہ بچے دانی اور ویجائنا کے مسائل سے دو چار ہیں“

” میری کزن کی پاخانے والی نالی کٹ گئی زچگی میں، اب وہ بستر پہ ہے“