یہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے لگ بھگ 950 سال پہلے کی بات ہے۔
آج مشرق ِ وسطیٰ کے جس مسلم ملک کو ہم ’یمن‘ کہتے ہیں، اُس کے جنوب مغربی علاقے کو ڈیڑھ صدی سے یہاں آباد ایک دولت مند قوم ’سبا‘ کی نسبت سے ’سبا‘ یا ’سبا کا ملک‘ کہا جاتا تھا۔ قومِ سبا کا زمانہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے 115 سال پہلے تک رہا جس کے بعد قوم حمیر نے اُن کی جگہ لے لی۔
آج یمن کا دارالحکومت صنعا ہے مگر جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں تب یہ اعزاز قدیمی شہر ’مارِب‘ کو حاصل تھا۔
اسی شہر میں واقع اپنے محل میں جواہرات سے مزین تخت پر براجمان ملکہ ایک خط لیے بیٹھی تھیں جسے مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن میں ’کِتٰبٌ کَرِیمٌ‘ کہا گیا ہے اور جس کا ترجمہ ’گرامی نامہ‘ یا ’معزز مکتوب‘ کیا گیا ہے۔
قرآن کی 27ویں سورۃ ’النمل‘ میں درج ہے کہ ملکہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ ’اے اہلِ دربار، ایک گرامی نامہ مجھے موصول ہوا ہے۔‘
’یہ سلیمان کی طرف سے ہےاور یہ اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے ہے۔ اِس میں لکھا ہے کہ تم میرے مقابلے میں سرکشی اختیار نہ کرو اور فرماں بردار ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ۔‘
قرآن میں حضرت سلیمان کو ناصرف ایک عظیم بادشاہ بلکہ اللہ کے نبی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن کے پاس ناصرف مادی طاقت تھی بلکہ وہ پرندوں، جانوروں اور جنّات سے بات بھی کر سکتے تھے۔ (سورہ نمل 27:16-17)
قرآن کے مطابق حضرت سلیمان، بنی اسرائیل کے پیغمبر اور بادشاہ حضرت داؤد کے اِن دونوں حیثیتوں میں وارث تھے۔ فلسطین اور شرق اُردن سے لے کر شام تک پھیلی اپنی سلطنت میں وہ 965 قبل مسیح سے لے کر 926 قبل مسیح تک حکمران رہے۔
عبرانی بائبل کے مطابق حضرت سلیمان کی 40 سالہ حکمرانی کے دوران اسرائیلی شہنشاہیت نے بے شمار شان اور دولت حاصل کی۔ بائبل میں حضرت سلیمان کو ’اسرائیل کا عظیم بادشاہ‘ بتایا گیا ہے جو اپنی دانشمندی کے لیے مشہور تھے۔